از: ایاز لطیف پلیجو
کل رات سینٹ اور قومی اسمبلی سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کرائی گئی ہے، جس کے مواد کے بارے میں تفصیلات آج کے انگریزی اور اردو اخبارات میں شائع کی گئی ہیں۔ آئین میں کی گئی اس ترمیم سے قبل چند معاملات میں سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ سے زیادہ اختیارات حاصل تھے، لیکن اب اس کے برعکس عدلیہ اور صوبوں کے عوام کے کئی اہم اختیارات اقتدار کی حامل حکومت کی بنائی گئی اسپیشل کمیٹی اور وفاق کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ آئیے آسان زبان میں اس ترمیم کے اہم نکات کو سمجھتے ہیں کہ اس کی منظوری سے آئین میں کیا بڑی تبدیلیاں آئیں گی، اس کے عدلیہ، اپوزیشن، عوام اور صوبوں پر کیا اثرات پڑیں گے اور اس سے وفاقی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو کیا اہم فوائد ہوں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم
آئین کے آرٹیکل 175 اے کی شق 3 میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس بنانے کے بجائے، اسپیشل پارلیمانی کمیٹی اور وزیر اعظم کی مرضی سے، تین سب سے سینئر ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا جائے گا۔
مقصد: اب سپریم کورٹ کے تمام ججوں میں سے کسی کو بھی چیف جسٹس بننے کا یقین نہیں ہوگا اور ہر جج وفاقی حکومت، اکثریتی اقتداری جماعتوں، اہم اداروں اور اسپیشل کمیٹی کے سامنے قبولیت حاصل کرنے اور وفاداری ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کرے گا تاکہ وہ آئندہ چیف جسٹس بن سکے۔
اسی آرٹیکل 175 کی شق 8 میں ترمیم کے ذریعے اب سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں نئے ججوں کی تقرری کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن اور وزیر اعظم کریں گے۔
مقصد: اب نئے ججوں کی تقرری کے فیصلے میں قومی اسمبلی اور سینٹ کی 8 رکنی کمیٹی جس میں پہلے آدھے ممبر اپوزیشن کے ہوتے تھے، کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یعنی مخالف جماعتوں کا ان تقرریوں میں کردار ختم ہو گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 179 میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا دورانیہ صرف 3 سال ہوگا، اس مدت کے بعد وہ ریٹائر ہو جائے گا، اور اگر 3 سال کی مدت سے قبل اس کی عمر 65 سال ہوگئی تو وہ بھی ریٹائر ہو جائے گا۔
مقصد: پہلے چیف جسٹس اپنی 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتا تھا۔ اس ترمیم سے کسی کم عمر والے چیف جسٹس کا زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنا اور وفاقی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 184 میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب سپریم کورٹ از خود نوٹس یعنی سو موٹو نوٹس پر کوئی ایسا حکم نہیں دے سکے گی جس کے بارے میں درخواست میں مطالبہ نہ کیا گیا ہو۔
مقصد: اب سپریم کورٹ کسی زیادتی یا آئین کی خلاف ورزی دیکھنے پر بھی، اگر اس حوالے سے درخواست میں کوئی مطالبہ نہ کیا گیا ہو، از خود نوٹس نہیں لے سکے گی۔
آئین کے آرٹیکل 186 اے میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب سپریم کورٹ کسی ایک ہائی کورٹ کا کیس صرف کسی دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے بجائے، اسے سپریم کورٹ میں بھی لے جا سکتی ہے۔
مقصد: صوبائی عوام کے حقوق یا قومی وسائل سے متعلق کسی بھی معاملے کو سپریم کورٹ اپنی مرضی سے ہائی کورٹ سے منتقل کر کے اپنے پاس سن سکتی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 199 کی نئی شق 1 اے کے مطابق اب کوئی بھی صوبائی ہائی کورٹ از خود نوٹس نہیں لے سکے گی۔
مقصد: کسی بھی صوبے کی ہائی کورٹ اب عوامی حقوق کی خلاف ورزی پر از خود نوٹس نہیں لے سکے گی۔
آئین کے آرٹیکل 193 میں ترمیم کر کے ہائی کورٹ میں نئے ججوں کی تقرری کے لیے عمر کی حد 45 سال سے کم کر کے 40 سال کر دی گئی ہے۔
مقصد: اس ترمیم کے ذریعے نوجوان وکلا کو اس ترمیم کی حمایت کے لیے مائل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
آئین کے نئے آرٹیکل 191 اے اور 202 اے کے مطابق اب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں علیحدہ آئینی بینچ ہوں گے، اور ان بینچز کے علاوہ کوئی بھی جج آئینی مسائل یا بنیادی حقوق کے مقدمات نہیں سن سکے گا۔
مقصد: سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تمام جج کرمنل، سول، اور دیگر کیسز سننے تک محدود ہو جائیں گے اور آئینی معاملات کے فیصلے صرف مخصوص آئینی بینچز ہی کریں گے۔
آئین کے آرٹیکل 175 اے کے مطابق اب ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ تیار کی جائے گی، اور ناقص کارکردگی پر انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہٹایا جا سکے گا۔
مقصد: ہائی کورٹ کے ججوں کو اب کارکردگی کی بنیاد پر جواب دہ بنایا جا سکے گا۔