لطیف جمال
سرمد شہید کی زندگی اور اس دور کے تاریخی، سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات پر بات کرتے ہوئے برصغیر کے مشہور عالم اور سیاستدان مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک خطبے میں کہا تھا: ”تلوار کی طاقت ہمیشہ سیاست کے سائے میں رہی ہے، اور سیاست مذہب کی چھاؤں میں۔“ یہ وہ دور تھا جس میں مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ اورنگزیب عالمگیر مغل سلطنت کا چھٹا حکمران تھا، جس نے 1658 سے 1707 تک 49 سال حکومت کی۔ اس کی حکومت شمال میں موجودہ پاکستان، کشمیر، اور ہماچل، مغرب میں افغانستان کے حصے کابل اور قندھار، جب کہ پورا ہندوستان تلنگانہ سے تامل ناڈو اور کرناٹک سے گولکنڈہ اور بیجا پور، اور بنگلہ دیش سے برما اور دہلی سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کے قدامت پسند مذہبی خیالات کے مخالف نہ صرف سرمد شہید تھے، بلکہ اس وقت کے کئی روشن خیال اور ترقی پسند علماء بھی اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان میں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی)، شیخ غالب، ابنِ عقیل، عین الدین وستانی، اورنگزیب کا بڑا بھائی دارا شکوہ بھی شامل تھے۔
اگرچہ اورنگزیب نے اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کی بغاوت کو کچل کر اسے قید کر دیا، اور سرمد کو 1661 میں شہید کر دیا، اور ایک سال بعد دارا شکوہ کو بھی 1662 میں پھانسی دے دی۔ سرمد شہید اور دارا شکوہ کے درمیان دوستانہ اور علمی رشتہ تھا، جو مشترکہ نظریات اور روحانی وابستگی پر مبنی تھا۔ دارا شکوہ سرمد کی شاعری اور خیالات کی تعریف کرتا تھا، جب کہ سرمد دارا شکوہ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر آزاد خیالی اور انسانیت کی اہمیت پر زور دیتا تھا۔
ممکن ہے اورنگزیب نے اپنی سلطنت کے تحفظ کے لیے دارا شکوہ کو قتل کروایا ہو، لیکن ان کے درمیان فکری اختلافات تھے، جو اُس دور کے کئی علماء کے بھی تھے جو اورنگزیب کی مذہبی انتہا پسندی کو انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اورنگزیب کو احساس تھا کہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگ فکری اور نظریاتی بنیادوں پر بغاوت پیدا کر سکتے ہیں، اسی لیے اس نے نہ صرف دارا شکوہ کو قید کیا بلکہ سرمد کو شہید کرنے کے بعد ایک سال کے اندر ہی دارا شکوہ کو بھی قتل کروا دیا۔
اورنگزیب کی حکومت کے دوران کئی بغاوتیں سامنے آئیں، جن میں راجپوت، سکھ، اور مراٹھا تحریکیں نمایاں تھیں۔ گرو تیغ بہادر کی شہادت کے بعد سکھوں نے اورنگزیب کے خلاف جنگ شروع کی، جو اس کے لیے بڑا چیلنج بن گئی۔ اورنگزیب کی مذہبی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں میں بےچینی پیدا ہوئی۔ اس کی حکومت کے آخری دور میں مغل سلطنت کی داخلی کمزوری اور مختلف علاقوں میں خودمختاری کے اعلانات شروع ہو گئے تھے۔
مذہب کا تعلق بنیادی طور پر انسان کی انفرادی زندگی سے ہوتا ہے، جو مختلف ادوار میں اہم رہا ہے۔ مثال کے طور پر، قدیم مصر میں مذہب کا مرکزی کردار تھا اور فرعون کو خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ بدھ مت کا بانی گوتم بدھ ہے، جس کی تعلیمات انفرادی روحانی سفر پر زور دیتی ہیں۔
اسلام کے بانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں امن، صبر، اور روحانیت پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح عیسائیت، ہندو مت، اور دیگر مذاہب نے بھی انفرادی روحانی ترقی کو اہمیت دی ہے۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ مذہب اور ریاست دو مختلف معاملات ہیں۔ ریاست ایک منظم سیاسی ادارہ ہے، جو کسی خاص جغرافیائی علاقے میں حکومت کے قانونی نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ سیاست ریاست کے اندر مختلف گروہوں اور افراد کے درمیان طاقت کی تقسیم کا عمل ہے۔ ریاست اور سیاست کے درمیان گہرا تعلق ہے، اور ریاست کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے سیاست ضروری ہے