یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 2024 کے انتخابات کا مینڈیٹ مکمل طور پر چوری کیا گیا تھا۔ اس مینڈیٹ کو چرانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک کا اقتدار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ باقی اتحادی سیاسی جماعتوں کے حوالے کیا جائے۔ تاہم بڑی سیاسی سازشوں اور انجینئرنگ کے باوجود پی ٹی آئی نے آزاد حیثیت میں اپنی اکثریت ظاہر کردی۔
مرکزی قیادت کے قید میں ہونے اور سخت پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی ایک مقبول عوامی جماعت بن کر ابھری۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملیوں سے ہزار اختلافات ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے چرائے گئے مینڈیٹ کا کوئی جواب نہیں۔ اگرچہ یہ جماعت نظریاتی سیاسی جماعت نہیں، لیکن جتنا نوجوان طبقہ اس کے پاس ہے، وہ کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں۔
پی ٹی آئی کے نوجوان کارکن سیاسی طور پر پختہ یا علمی طور پر وسیع نہیں، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں وہ دیگر جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں سے کہیں آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کے انداز حیران کن ہیں۔ عمران خان کی "آخری کال" پر سب سے پہلے وہی کارکن موجود تھے، جنہیں میڈیا "جنونی پیروکار" کہتا ہے۔ یہ کارکن نہ علی امین گنڈا پور کی غلطیاں سمجھتے ہیں اور نہ ہی بشریٰ بی بی کی سیاسی زندگی میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ صرف عمران خان کے سحر اور نعرے میں مبتلا ہیں، جنہیں وہ انقلاب کی علامت سمجھتے ہیں۔
یہ کارکن یقین رکھتے ہیں کہ ملک کو بچانے کی آخری امید صرف عمران خان ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جمود کو توڑنے کی صلاحیت صرف ان میں ہے۔ اگرچہ ان کا اقتدار بھی آزمایا جا چکا، لیکن یہ کارکن اس دوران کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور عمران خان کی ہر سیاسی حکمت عملی کو پسند کرتے ہیں۔
"آخری کال" کے اثرات
عمران خان نے جب اپنی احتجاجی تحریک کی "آخری کال" دی، تو انہیں یقین تھا کہ ان کے کارکن "یا کریں گے یا مر جائیں گے۔" تاہم، بڑے مقاصد اور نظام کی تبدیلی کے لیے دی جانے والی کال کے نتائج کے لیے تیار رہنا بھی ضروری ہے۔
9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ آج بھی جاری ہیں۔ کارکن ریاستی دباؤ کا شکار ہیں اور سینئر قیادت سینکڑوں مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ جب یہ "آخری کال" دی گئی تھی، تو یہ بات واضح تھی کہ انقلابی تحریک اور اقتدار کی سیاست میں فرق ہوتا ہے۔ وہ مطالبات جنہیں "آخری کال" کی بنیاد بنایا گیا، نہ کوئی انقلاب لاتے اور نہ نظام کی تبدیلی کا سبب بنتے۔
قیادت کی عدم موجودگی
پی ٹی آئی کی قیادت کو اس احتجاجی تحریک کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے تھی۔ بشریٰ بی بی کا یہ کہنا کہ مرکزی قیادت احتجاج میں شامل نہیں تھی، اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک کی قیادت میں تضاد اور خلا موجود تھا۔ ایسے حالات میں جب قیادت غیر واضح ہو، تحریکیں اختلافات اور تنازعات کا شکار ہو جاتی ہیں۔
تاریخ سے سبق
فرانسیسی انقلاب کے بعد 1795-1799 کے دوران سیاسی اختلافات کے نتیجے میں نیپولین بوناپارٹ اقتدار پر قابض ہوا۔ اسی طرح 1857 کی جنگ آزادی میں قیادت کے اختلافات کے باعث انگریزوں نے بغاوت کو کچل دیا۔ پی ٹی آئی اپنی ناکامی کو حکومتی جبر کے سر ڈال سکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیادت کی غیر موجودگی نے تحریک کو ناکامی کی طرف دھکیل دیا۔
آخری انجام
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد کو کنٹینروں سے قلعہ بنا دیا، جس سے ایسا محسوس ہوا کہ خیبرپختونخوا کوئی دشمن ملک ہے۔ ملکی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے کسی سیاسی جماعت کے احتجاج کو اس طرح نہیں روکا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، پی ٹی آئی کا یہ احتجاج ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا، جو رات کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔
صبح کے وقت صرف جلی ہوئی گاڑیاں اور کنٹینر رہ گئے، اور عوامی احتجاج کے یہ آثار بھی جلد ختم ہو گئے۔ اس احتجاج کی ناکامی اور اندرونی اختلافات نے پی ٹی آئی کو ایک بڑے بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔