ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے اختیارات
مسودے کے مطابق، جھوٹی معلومات پھیلانا، خوف و ہراس پیدا کرنا، یا آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے امن کو خراب کرنا سنگین جرائم کے زمرے میں شامل ہوگا۔ ایسے افراد کو قید اور جرمانے دونوں کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
اتھارٹی کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسے مواد کو بلاک کرے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں، ریاستی اداروں یا افراد کو نشانہ بنائے۔ مزید برآں، مذہبی یا نسلی نفرت، دہشت گردی، اور ریاست مخالف تشدد کو فروغ دینے والے مواد کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
فحش مواد اور جھوٹے الزامات پر بھی پابندی
قانون کے مطابق، دھمکیوں، جھوٹے الزامات، یا فحش مواد کو بھی ہٹایا جائے گا۔ اس کے علاوہ، اتھارٹی کے فیصلے کو ایک ٹریبونل میں چیلنج کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا تاکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم رکھا جا سکے۔
اتھارٹی کی تشکیل
اتھارٹی میں ایک چیئرمین اور چھ اراکین شامل ہوں گے، جن میں تین ایکس آفیشیو ممبرز بھی ہوں گے۔ ان کا کام ڈیجیٹل حقوق کی حفاظت اور ملک میں سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ہوگا۔
سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف حکومت کے اقدامات
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور جعلی خبروں کے ذریعے پروپیگنڈے پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے، جو قومی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
انٹرنیٹ فائر وال کے تجربات اور مسائل
حکومت نے انٹرنیٹ فائر وال کے مختلف تجربات کیے ہیں، جن کے دوران انٹرنیٹ کی رفتار سست ہوئی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں خلل پیدا ہوا۔
جولائی اور اگست میں کیے گئے تجربات کے دوران صارفین کو سوشل میڈیا اور مواصلاتی پلیٹ فارمز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مستقبل کے لیے اہم اقدامات
یہ ترامیم ملک میں سائبر جرائم کی روک تھام اور عوامی تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہیں۔ تاہم، ان قوانین کے مؤثر اطلاق اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے شفاف اور متوازن نظام ضروری ہے۔