سلاخوں کے پیچھے بیٹھا قیدی اپنی سوچوں کے گرداب میں الجھا ہوا ہے، جس کے چہرے پر سیاست کے زخم واضح ہیں۔ اس کے اندر کی خالی پن دوستوئیفسکی کے ناول "Crime and Punishment" کے کردار رودین راسکولنیکوف کی اندرونی کشمکش کی یاد دلاتا ہے۔ یہ قیدی بھی گناہ، پچھتاوے، اور تنہائی کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔
جیل کی کوٹھری میں وقت رک سا گیا ہے، ہر لمحہ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ قید صرف جسم کی نہیں بلکہ روح کی بھی ہے۔ اڈیالہ کی شام کے سایے گہرے ہوتے جا رہے ہیں، اور قیدی سوچ رہا ہے کہ سیاست کی اس خزاں میں وہ ساتھی کہاں ہیں جو اس کے زخموں کا بوجھ اٹھا سکتے تھے؟
پی ٹی آئی کے اس قیدی کو اپنی پارٹی کی قیادت سے شکوہ ہے، جو شاید اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ جیل کے باہر کی قیادت نے اندرونی طور پر عمران خان کے سیاسی مستقبل کو تاریکی میں دھکیلنے کی کوئی مفاہمت کی ہے؟
عمران خان اس وقت البرٹ کامیو کے ناول "The Stranger" کے کردار مرسو کی طرح اپنی ذات کی تنہائی میں مبتلا ہے۔ کیا اس نے کبھی نیلسن منڈیلا کی "Long Walk to Freedom" یا گاندھی کے وہ جملے پڑھے ہیں کہ "قید کی خاموشی حق کے آواز کو اور مضبوط کر دیتی ہے"؟
سیاسی قیادت کے لیے جیل ایک ایسا میدان ہے جہاں سب سے بڑی جنگ اپنے نفس کے ساتھ کرنی پڑتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی قیادت اس امتحان میں ناکام رہی ہے۔ اختلافات، کمزور حکمت عملی، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے شکوے پی ٹی آئی کو اندرونی طور پر کمزور کر چکے ہیں۔
اڈیالہ جیل کے سرد اندھیرے اور سازشوں کی گونجتی ہوا میں قیدی نمبر 804 سوچ رہا ہے کہ سیاست کے اس موسم خزاں میں کون سا سایہ دار درخت اس کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے؟