جب مشرف نے نواز کی جگہ شہباز کو وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی

پچھلی تاریخ پر غور کرتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک قیمتی سبق سیکھا — "قبضہ" کرنے کے بجائے "نگہداشت" کرنا سیکھ لیا
تحریر: مظہر عباس
11 اکتوبر 2024

تاریخ کے سفر میں 12 اکتوبر 1999 کو ہونے والی چوتھی فوجی بغاوت کی مکمل کہانی، جو اب تقریباً 25 سال پرانی ہو چکی ہے، زیادہ تر ان کہی رہتی ہے، جسے تاریخ کے سائے میں چھپایا گیا ہے۔ کیا اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اس 'بغاوت' کے ذمہ دار تھے، یا مرحوم جنرل پہلے ہی انہیں ہٹانے کا ارادہ کر چکے تھے؟ یہاں تک کہ 'قبضے' سے پہلے انہوں نے شہباز شریف کو اپنے بھائی کی جگہ لینے پر حمایت کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، شہباز نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اپنے بھائی کو فوجی حکمران کی نیتوں سے آگاہ کیا۔

اُس دن کے واقعات کے کچھ کلیدی گواہوں سے بات کرنے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ اگرچہ نواز شریف کا فوجی سربراہوں کے ساتھ تعلقات میں اُتار چڑھاؤ رہا، ان کی سب سے بڑی غلطی جنرل جہانگیر کرامت کی جگہ جنرل مشرف کو مقرر کرنا تھا، حالانکہ جنرل علی قلی خان سینئر تھے۔

سعید مہدی، سابق پرنسپل سیکرٹری، جو اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے قریب تھے، نے اپنی آنے والی کتاب میں 12 اکتوبر کے حالات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ مشرف نے شہباز کو نواز کی جگہ لینے اور پارٹی کے رہبر بننے کی پیشکش کی تھی۔

یہ شاید وہ لمحہ تھا جب نواز شریف کو مشرف کی نیتوں پر شبہ ہوا، اور وہ غلط بھی نہیں تھے۔ اُس دن نواز شریف نے جنرل مشرف کو ہٹانے کا اعلان کیا، جس کے بعد حالات تیزی سے بگڑتے چلے گئے۔

فوجی قیادت اور نواز شریف کے درمیان اختلافات کی جڑیں کارگل کی جنگ سے جڑی ہیں، جہاں دونوں میں سے کسی ایک کو جانا تھا۔ مشرف نے اپنے قریبی فوجی کمانڈروں کو اعتماد میں لے کر واضح ہدایات دی تھیں: ’’اگر وہ عمل کرے گا، تو ہم ردعمل دیں گے۔‘‘

اس واقعے کے بعد پاکستان میں چوتھی فوجی آمریت کا آغاز ہوا جو نو سال تک جاری رہی۔ جنرل مشرف کا طرز حکومت زیادہ لبرل تصور کیا گیا، لیکن وہ بھی ایک غیر آئینی قبضہ کرنے والے کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔

آج، پچھلے واقعات کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ سیکھا ہے کہ اب ’’قبضہ‘‘ کرنے کے بجائے سول حکومت کی ’’نگہداشت‘‘ کی جائے تاکہ نظام کو مستحکم رکھا جا سکے۔

جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے، انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ "طاقت کا سرچشمہ عوام" کا نعرہ ایک سراب ہے۔ یوں، پاکستان میں جمہوریت ایک ہائبرڈ نظام کے تحت جاری رہے گی۔
جدید تر اس سے پرانی