سپریم کورٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، جسٹس اطہر من اللہ کا تفصیلی نوٹ


اسلام آباد: جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات سے متعلق صوابدیدی نوٹس پر اپنا تفصیلی نوٹ جاری کردیا۔  جس میں انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، عدالت سیاسی تنازعات کے حل کا مستقل مرکز بن چکی ہے، پی ٹی آئی کی درخواست پر کارروائی قبل از وقت تھی۔
 25 صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ میں ایسے تنازعات سے گریز کیا جائے، ایسے تنازعات کو عدالت میں لانے سے عدالت کا نقصان ہوگا۔
 چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرکے سیاسی جماعتوں کو عدالت میں اعتراضات کی دعوت دی گئی۔
 چیف جسٹس کے مطابق صوابدیدی نوٹس کا عمل شروع ہونے سے ملزمان کے حقوق متاثر ہوئے، فل کورٹ بنانے سے ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔
 میں جسٹس منصور شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں، صوابدیدی نوٹس کا فیصلہ 4 ججز کا تھا، میں نے خود کو بینچ سے الگ نہیں کیا، 27 فروری کو اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ بنچ میں بیٹھوں گا۔
 جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا ہے کہ تحریک انصاف نے سیاسی حکمت عملی کے تحت استعفیٰ دیا، سیاسی حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر بھی سوالات ہیں، کیا ایسی حکمت عملی آئین اور جمہوریت سے مطابقت رکھتی ہے؟  کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
 جاری کیے گئے تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا عدالت کو اس طرح کی سیاسی حکمت عملی کو فروغ دینے کے لیے اپنا فورم استعمال کرنے کی اجازت دی جائے؟  کیا عدالت کو غیر جمہوری طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے؟  ایسا کرنے سے عدلیہ انجانے میں پارلیمنٹ کو کمزور کر دے گی۔

جدید تر اس سے پرانی