جنوبی کوریا میں مارشل لاء کے اعلان کے بعد صدر یون کے مواخذے کا مطالبہ

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے مارشل لاء کے اعلان اور چند گھنٹوں بعد ہی اسے واپس لینے کے فیصلے نے ملک میں دہائیوں کے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ اس اقدام کے بعد قانون سازوں نے صدر کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

مارشل لاء کا اعلان اور فوری ردعمل

منگل کی رات اچانک مارشل لاء کے اعلان کے بعد پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ صدر نے اسے شمالی کوریا اور ملک دشمن عناصر کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری قرار دیا، لیکن انہوں نے کسی مخصوص خطرے کا ذکر نہیں کیا۔

  • مارشل لاء کے تحت پارلیمانی اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔
  • میڈیا اور اشاعتی اداروں کو مارشل لاء کمانڈ کے ماتحت کر دیا گیا۔
  • فوجی دستے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہو گئے، جہاں اراکین نے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔

پارلیمنٹ کی کارروائی اور مارشل لاء کی منسوخی

چند گھنٹوں میں، پارلیمنٹ نے 300 اراکین میں سے 190 کی موجودگی میں متفقہ طور پر مارشل لاء کو ختم کرنے کی قرارداد منظور کی۔ حتیٰ کہ صدر کی اپنی جماعت کے 18 اراکین نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی۔

مواخذے کا مطالبہ

مرکزی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر اپوزیشن اراکین نے صدر کے مواخذے یا استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

  • اپوزیشن رہنما پارک چان ڈے نے کہا، "مارشل لاء کے اعلان کے بعد صدر یون پر غداری کے الزامات عائد ہونے چاہئیں۔ وہ مزید حکومت چلانے کے اہل نہیں رہے۔"

سیاسی اور معاشی اثرات

  • مظاہرین نے پارلیمنٹ کے باہر جشن منایا اور بڑے پیمانے پر مظاہروں کی تیاری کی جا رہی ہے۔
  • مالیاتی منڈیاں شدید متاثر ہوئیں۔ اسٹاک مارکیٹ 2% تک گر گئی اور جنوبی کوریائی وون کی قدر میں کمی دیکھنے کو ملی۔
  • حکومت نے مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔

عالمی ردعمل

  • امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مارشل لاء کی منسوخی کا خیرمقدم کیا اور جنوبی کوریا میں سیاسی مسائل کے پرامن حل کی امید ظاہر کی۔
  • امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو مظاہروں والے علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی۔
  • سویڈن کے وزیراعظم نے جنوبی کوریا کا دورہ ملتوی کر دیا، اور امریکہ و جنوبی کوریا کے مشترکہ فوجی مشقیں مؤخر کر دی گئیں۔

سیاسی بحران کی وجوہات

یون سک یول، جو 2022 میں ایک قریبی مقابلے میں صدر منتخب ہوئے تھے، اپنی حکومت کے آغاز سے ہی غیر مقبول رہے ہیں۔ ان کی حمایت کی شرح طویل عرصے سے 20% کے آس پاس ہے، اور ان کی جماعت نے اپریل میں پارلیمانی انتخابات میں بھاری شکست کھائی تھی۔

نتیجہ

جنوبی کوریا نے ایک بڑے سیاسی بحران سے وقتی طور پر بچاؤ کیا، لیکن صدر یون کی پوزیشن مزید کمزور ہو گئی ہے۔ اگر مواخذے کا عمل آگے بڑھا تو یہ جنوبی کوریا کے سیاسی نظام میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔

جدید تر اس سے پرانی