انتقامی سیاست میں مفاہمت کی باتیں...!!

موجودہ سیاسی انتشار کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، "پونا" کے بزرگ "اوشو" کی وہ بات یاد آتی ہے جس نے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا:

"پادریوں اور سیاستدانوں نے ہمیشہ انسانیت کے خلاف سازش کی ہے۔"

ملک میں جاری جمہوری سازشوں کی قیمت ہمیشہ عوام نے چکائی ہے۔ ان سازشوں نے عوام کے سر جھکائے اور ملک کو سیاسی انتشار کی تاریک رات میں دھکیل دیا۔ ساتھ ہی، گہرے بحرانوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں، جو بارش کی بجائے آگ برساتے ہیں، ایسی آگ جو سماج کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

موجودہ دور سیاسی انتہا پسندی کے عروج پر ہے، جہاں سیاسی جماعتیں رواداری اور برداشت کے بجائے قبائلی رویے اپنائے ہوئے ہیں۔ سیاسی تحمل و برداشت صرف امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہی باقی نہیں رہا، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے کا واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست مافیا کی بھاری سرمایہ کاری کا شکار ہے۔

پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے لیے ملک کو جنگی میدان میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ جمہوریت کے حق میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند ہیں۔ اس اقتدار کی جنگ میں وہ عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے اختلافات کو جواز بنا کر سازشوں کا جال بچھاتے ہیں، جس سے ملک مزید بحرانوں کی طرف بڑھتا ہے۔

ملک کے مسائل کا حل صرف فوجی آپریشنز میں تلاش کرنے کی کوششوں نے انارکی کو بڑھایا ہے۔ بلوچستان میں دہائیوں سے جاری آپریشنز کے باوجود امن قائم نہیں ہو سکا۔ لاپتہ افراد کے سنگین مسائل کو عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں نسل کشی کا نام دے رہی ہیں۔

پاکستان نے 2010 میں "شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے" (ICCPR) پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ لیکن سیاسی انتقام اور غیر جمہوری اقدامات نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، جس پر یورپی یونین اور دیگر عالمی تنظیمیں تنقید کرتی رہی ہیں۔

آج بھی ملک کے سیاسی رہنما ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں انتقامی کارروائیوں سے باز رہیں اور مفاہمت کو ترجیح دیں تو ہی ملک سیاسی انتشار سے نکل سکتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ جمہوریت کو آمریت کے زیر اثر نہ رہنے دیا جائے اور سیاسی قیادت عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیح بنائے۔ بصورت دیگر، یہ انتشار جاری رہا تو ملک مزید غیر یقینی صورتحال کا

 شکار ہو جائے گا۔


جدید تر اس سے پرانی