آج کل ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ مسئلہ سوشل میڈیا کے منفی رجحانات میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ویڈیوز کس حد تک حادثاتی طور پر لیک ہوتی ہیں اور کہاں پر اس عمل کو جان بوجھ کر شہرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مشہور ہونے اور تیزی سے فالوورز بڑھانے کے لیے کچھ لوگ نازیبا اور متنازع مواد کا سہارا لینے سے بھی نہیں کتراتے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اب یہ ایک عام چلن بن چکا ہے کہ جب کسی ٹک ٹاکر یا انفلوئنسر کے ویوز اور فالوورز میں کمی آتی ہے تو وہ جان بوجھ کر ایسی ویڈیوز لیک کرواتے ہیں جو لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرے۔ جیسے ہی ایسی ویڈیوز منظرِ عام پر آتی ہیں، لوگ فوری طور پر اس شخصیت کو سرچ کرتے ہیں، اس کی پروفائلز کا جائزہ لیتے ہیں، اور اکثر اوقات اس کو فالو بھی کر لیتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انفلوئنسر دوبارہ سے خبروں میں آ جاتا ہے اور اس کے فالوورز اور ویوز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ کچھ ٹک ٹاکرز دانستہ طور پر اپنی نازیبا ویڈیوز لیک کروا کر نہ صرف دوبارہ شہرت حاصل کرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے معاشی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
اس طرز عمل نے سوشل میڈیا پر مشہوری کے اصولوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جہاں اخلاقیات اور سماجی اقدار کو صرف چند دن کی شہرت اور چند فالوورز کے حصول کے لیے پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آیا یہ چند لمحوں کی مشہوری ہماری اخلاقیات اور معاشرتی اقدار سے بڑھ کر ہے یا نہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی ایسے مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔