کراچی میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں، جس کے نتیجے میں سیکشن 144 کی خلاف ورزی پر سینکڑوں افراد، بشمول خواتین، کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں الگ الگ احتجاج جاری تھے، جن میں کراچی پریس کلب اور کلفٹن میں تین تلوار شامل ہیں، جہاں ٹی وی فوٹیج میں پولیس کو مظاہرین پر لاٹھی چارج اور ان کی گرفتاری کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
'سندھ رواداری مارچ' کے شرکاء نے کراچی پریس کلب کے باہر سیکشن 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس سے جھڑپ کی، جو شہر میں پانچ سے زائد افراد کے اجتماع اور مظاہروں پر پابندی عائد کرتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق، مختلف علاقوں سے 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، جن میں کراچی پریس کلب، میٹروپول ہوٹل اور جناح اسپتال کے باہر سے گرفتاریاں شامل ہیں۔
جھڑپوں میں چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے، جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
جنوبی ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سید اسد رضا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کم از کم 20 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
مزید پولیس اہلکاروں کو کراچی پریس کلب کی طرف جانے والے تمام راستوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
گورنر ہاؤس کے قریب ایک اور جھڑپ میں، پولیس نے ایک مذہبی تنظیم کے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے، جنہوں نے کے پی سی پر جوابی احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس کے نتیجے میں ریلی کو میٹروپول ہوٹل کی طرف بڑھنے پر مجبور کیا گیا۔
آنسو گیس کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا، جس سے دو اہلکار زخمی ہو گئے، جبکہ ایک پولیس وین کو بھی آگ لگا دی گئی۔
دریں اثناء، کلفٹن کے تین تلوار کے قریب کم از کم 27 مظاہرین کو بھی گرفتار کیا گیا، جن میں خواتین شامل تھیں۔
سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے تصدیق کی کہ پولیس نے کچھ مظاہرین کو سیکشن 144 کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا ہے، جو کراچی کمشنر کی جانب سے نافذ کیا گیا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جو "قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں گے۔"
اس کے علاوہ، وزیر داخلہ نے کراچی پریس کلب کے باہر صحافیوں کے ساتھ ہونے والی 'بدسلوکی' کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔