بدین کے قریب تیرہ معذور فیملی ممبرز کے خاندان کا درد داستان بن گیا۔
گاؤں صاحب خان چانگ کی اکیلی بیمار خاتون تیرہ معذور بچوں کے لیے مسیحا بن گئی۔
بچوں کی بھوک تنگ گھر اور دیگر مسائل سے زیادہ تکلیف دیتی ہے: عورت شریف
بدین کے قریب ایک ہی گھر کے تیرہ معذور افراد شدید مشکلات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ منظر بدین کے نواحی گاؤں صاحب خان چانگ کے بدقسمت گھر کا ہے جس کے خاندان کے تیرہ افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
آٹھ بیٹیوں اور پانچ معصوم بیٹوں کا بوجھ بچوں کی ماں کے لیے کسی بوجھ سے کم نہیں
شریفاں نامی خاتون اپنے 13 بے سہارا بچوں کو اکیلے کیسے پالتی ہے، وہ درد جسے کوئی محسوس نہیں کر سکتا، لیکن اس ماں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت اپنے بچوں کو کھلانے کا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس گھر میں دن میں صرف ایک بار کھانا پکایا جاتا ہے اور سانس صرف چائے کی چھڑی سے لیا جاتا ہے۔
اس خاتون اور اس کے معذور بچوں کے خواب جدید موبائل فون چلانا، لگژری کاروں میں سفر کرنا یا بنگلوں میں رہنا نہیں بلکہ صرف تین پہیوں کا کھانا کھانا ہے۔
متاثرہ خاندان ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتا ہے لیکن جھونپڑیوں کی چھت سے رات کا آسمان دیکھا جا سکتا ہے۔
متاثرہ خاندان کا غریب گھر ہے لیکن رات کو اس کی چھت نہیں ہوتی
پیئرسن سانون اور خاتون شریفاں نے بتایا کہ معذور بچوں کے لیے کبھی بھی وہیل چیئر نہیں جو انہیں بیت الخلا یا دیگر کاموں کے لیے لے جانے کے لیے استعمال کی جا سکے۔
خاندان کے کچھ افراد کے لیے معذوری کارڈز بنائے گئے ہیں لیکن سندھ حکومت اور کسی دوسرے محکمے نے اب تک متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی۔
محکمہ سوشل ویلفیئر کی ماہانہ اور سالانہ بریفنگ میں اس خاندان کے بارے میں کبھی کسی نے کچھ نہیں بتا
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس خاندان اور گاؤں میں کسی کو معذوری پروگرام یا BISP کے لیے پیسے نہیں مل رہے۔
یہ گاؤں ایم پی اے تاج محمد ملاح اور وزیر اعلیٰ کے مشیر نور اللہ قریشی کے حلقے میں آتا ہے جو ان غریبوں سے ووٹ لینے آتے تو یاد کرتے ہیں لیکن ووٹ لینے کے بعد واپس نہیں آتے۔
پیئرسن سانون چانگ بلند آواز میں کہتا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج ہمارے مالک ہیں، لیکن یہاں کے تمام منتخب نمائندے ہمارے لیے نہ مرد ہیں اور نہ ہی عورت، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں۔